بلومبرگ کے مطابق سرفہرست 5 امیر ترین افراد
بلومبرگ نے اگست 2024 میں دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست جاری کی ہے، جس میں عالمی کاروبار پر غلبہ پانے والے ٹائٹنز کو دکھایا گیا ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس باوقار درجہ بندی پر کون بیٹھا ہے۔
سیاسی اداروں کا بحران
موجودہ سیاسی اداروں کا بحران بڑھنے کی پیش گوئی ہے۔ برطانیہ میں بریکسٹ پہلا اشارہ تھا۔ بعد میں دیگر ممالک نے ممکنہ خود مختاری کا اعلان کیا۔ تجزیہ کاروں کو توقع ہے کہ دیرینہ مسائل مزید بگڑ جائیں گے اور موجودہ سال میں نئے چیلنجز سامنے آئیں گے۔ اس پس منظر میں، بہت سی ریاستیں کسی بھی کمیونٹی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں جو ان کی آزادی پر قدغن لگاتی ہے۔ خودمختاری کے لیے نئی سیاسی تحریکیں زور پکڑیں گی۔ اسی وقت، ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ روس-یوکرین تنازعہ میں بہت سے ممالک کو کھینچا جائے گا۔
عالمی کساد بازاری اور کئی ممالک میں افراط زر
ماہرین اقتصادیات کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ 2023 کے لیے عالمی اقتصادی نقطہ نظر اداس ہے۔ اہم اقتصادی خطرات یہ ہیں کہ امریکی معیشت اور دنیا کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ فیڈ اور دیگر مرکزی بینکوں کے جارحانہ موقف کے درمیان۔ ایک ہی وقت میں، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت اور چین میں اقتصادی ترقی کو پیچھے چھوڑنے کی بدولت ایک مکمل کساد بازاری سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود، بہت سے ممالک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں مانگ کم ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023 میں افراط زر کی شرح 5 فیصد تک بڑھ جائے گی، جو کساد بازاری اور مالیاتی بحران دونوں کو متحرک کرے گی۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ دنیا کارپوریٹ اور خودمختار ڈیفالٹس کی ایک سیریز کا تجربہ کر سکتی ہے۔ مؤخر الذکر یورپی یونین کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کے نتیجے میں تباہ کن سماجی سطح بندی، سکڑتے ہوئے متوسط طبقے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اس پس منظر میں کاروباری اداروں اور افراد کو دیوالیہ ہونا پڑے گا۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق سال 2023 دیوالیہ پن کا نشان ہوگا۔
تجارتی تعلقات کی علیحدگی
کئی دہائیوں سے بنائے گئے موجودہ اقتصادی تعلقات کی علیحدگی کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اس مسئلہ کا تعلق صرف روس اور مغربی ممالک سے ہی نہیں بلکہ کئی دوسری ریاستوں سے بھی ہے۔ اکثر ممالک کے حکام کارپوریٹ معاہدوں کے مقابلہ میں قومی مفادات کی بنیاد پر اپنی اقتصادی پالیسی بناتے ہیں۔ اب فوجی سرگرمیاں معاشی محاذ آرائی میں بدل چکی ہیں۔ تاہم یہ کھلے مسلح تصادم سے کم تباہ کن نہیں۔ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ 2023 میں سب سے زیادہ برآمد کرنے والے ممالک اور اہم مصنوعات استعمال کرنے والے ممالک کے درمیان محاذ آرائی میں شدت آئے گی۔ اندازوں کے مطابق، موجودہ سال پابندیوں اور کرنسیوں کی جنگ کے ساتھ ساتھ پابندیوں اور قیمتوں کے تصادم کے ساتھ نشان زد ہوگا۔
کلیدی شرح اور منڈی پر اس کا اثر
پچھلے سال دسمبر میں، فیڈ نے 2023 کے آخر کے لیے اپنے میڈین فیڈرل فنڈز کی شرح کی پیشن گوئی کو 4.6 فیصد سے بڑھا کر 5.1 فیصد کر دیا۔ تاہم، شرح فیوچرز مارکیٹ اب بھی امید کر رہی ہے کہ فیڈ مالیاتی پالیسی کو سخت کرنے کے چکر کو ختم کر دے گا۔ منڈی کے شرکاء کا خیال ہے کہ امریکی معیشت کے لیے سخت لینڈنگ سے بچنے کے لیے ریگولیٹر اس سال اپنا موقف نرم کر دے گا۔ اگر مالیاتی پالیسی میں نرمی نہیں کی جاتی ہے تو، شرح کی دوبارہ تخمینہ شدہ توقعات عالمی اور امریکی اسٹاک مارکیٹس میں گراوٹ کا باعث بن سکتی ہیں۔
توانائی کی زیادہ قیمتیں
توانائی اور دھاتوں کے عالمی ذخائر میں کمی کی وجہ سے اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے عالمی معیشت کے دباؤ میں آنے کی بھی توقع ہے۔ ایسا منظر نامہ دنیا کو جمود کے دہانے پر کھڑا کر دے گا۔ ہائیڈرو کاربن مارکیٹ میں بنیادی خطرات یورپی یونین میں کساد بازاری، چین میں وائرس کی روک تھام، نیز امریکہ کی موجودہ معاشی صورتحال جو کہ فیڈ کو مالیاتی پالیسی کو سخت رکھنے کی اجازت دیتی ہے کا مجموعہ ہیں۔ اگر امریکہ ایران اور وینزویلا کو رعایت دیتا ہے تو اس سے برینٹ اور روسی یورال تیل کی قیمتوں پر دباؤ بڑھے گا۔ اس کے نتیجے میں عالمی برآمدی محصولات کو نقصان پہنچے گا اور روس کے لیے اضافی قدر میں کمی کا عنصر بن جائے گا۔ اگر یہ صورتحال طویل مدت تک برقرار رہی تو مالی استحکام سوالیہ نشان بن جائے گا۔
بلومبرگ نے اگست 2024 میں دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست جاری کی ہے، جس میں عالمی کاروبار پر غلبہ پانے والے ٹائٹنز کو دکھایا گیا ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس باوقار درجہ بندی پر کون بیٹھا ہے۔